پرسشِ غم کا شکریہ کیا تجھے آگہی نہیں

غزل| احسان دانشؔ انتخاب| بزم سخن

پرسشِ غم کا شکریہ کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی درد ہے زندگی نہیں
دیکھ کے خشک و زرد پھول دل ہے کچھ اس طرح ملول
جیسے مری خزاں کے بعد دورِ بہار ہی نہیں
دور تھا اک گزر چکا نشہ تھا اک اتر چکا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوۂ بے رخی نہیں
عشرتِ خلد کے لئے زاہدِ کج نظر جھکے
مشربِ عشق میں تو یہ جرم ہے بندگی نہیں
تیرے سوا کروں پسند کیا تری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں قیمتِ بندگی نہیں
لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے وقت نہ وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقیں کہ تو حاصلِ زندگی نہیں
دل کی شگفتگی کے ساتھ راحتِ میکدہ گئی
فرصتِ مے کشی تو ہے حسرتِ مے کشی نہیں
اشکِ رواں کی آب و تاب کر نہ عوام میں خراب
عظمتِ عشق کو سمجھ گریۂ غم ہنسی نہیں
عرصۂ فرقت و فراق ایسا طویل تو نہ تھا
بھول رہے ہو تم مجھے میں کوئی اجنبی نہیں
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں
ایک وہ رات تھی کہ جب تھا مرے گھر وہ ماہتاب
ایک یہ رات ہے کہ اب چاند ہے چاندنی نہیں
مژدہ کہ نامرادِ عشق تیری غزل کا ہے وہ رنگ
وہ بھی پکار اٹھے کہ یہ سحر ہے شاعری نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام