اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

غزل| فانیؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا
ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام