مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ

غزل| فانیؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
بھڑک اٹھی ہے شمعِ زندگانی دیکھتے جاؤ
چلے بھی آؤ وہ ہے قبرِ فانیؔ دیکھتے جاؤ
تم اپنے مرنے والے کی نشانی دیکھتے جاؤ
ابھی کیا ہے کسی دن خوں رلا ئے گی یہ خاموشی
زبانِ حال کی جادو بیانی دیکھتے جاؤ
غرورِ حسن کا صدقہ کوئی جاتا ہے دنیا سے
کسی کی خاک میں ملتی جوانی دیکھتے جاؤ
ادھر منہ پھیر کر کیا ذبح کرتے ہو ادھر دیکھو
مری گردن پہ خنجر کی روانی دیکھتے جاؤ
بہارِ زندگی کا لطف دیکھا اور دیکھو گے
کسی کا عیشِ مرگِ ناگہانی دیکھتے جاؤ
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

وہ اٹّھا شورِ ماتم آخری دیدارِ میت پر
اب اٹّھا چاہتی ہے نعشِ فانیؔ دیکھتے جاؤ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام