اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے

غزل| جگرؔ مراد آبادی انتخاب| بزم سخن

اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
یہ کس کا تصوّر ہے یہ کس کا فسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانہ ہے
دل سنگِ ملامت کا ہر چند نشانہ ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانہ ہے
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانہ ہے
وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانہ ہے
شاعرہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانہ ہے
فطرت مرا آئینہ قدرت مرا شانہ ہے
جو اُن پہ گزرتی ہے کس نے اُسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانہ ہے
آغازِ محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانہ ہے
آنکھوں میں نمی سی ہے چُپ چُپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے
ہم درد بدل نالاں وہ دست بدل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانہ ہے
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا اُن سے
کل اُن کا زمانہ تھا آج اپنا زمانہ ہے
اے عشق جنوں پیشہ! ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستمگر کو ہنس ہنس کے رُلانا ہے
تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہہ ہستی
آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رُلانا ہے
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
خود حسن و شباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھئے تب وہ ہیں آئینہ ہے شانہ ہے
ہم عشقِ مجسّم ہیں لب تشنہ ومستسقی
دریا سے طلب کیسی دریا کو رُلانا ہے
تصویر کے دو رُخ ہیں جاں اور غمِ جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دِکھانا ہے
یہ حُسن وجمال اُن کا یہ عشق و شباب اپنا
جینے کی تمنّا ہے مرنے کا زمانہ ہے
مجھ کو اِسی دُھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے وہ اب آئے لازم اُنہیں آنا ہے
خوداری و محرومی محرومی و خوداری
اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانہ ہے
اشکوں کے تبسّم میں آہوں کے ترنّم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام