ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا

غزل| جگرؔ مراد آبادی انتخاب| بزم سخن

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توڑ تاڑ کے تھرّا کے پی گیا
زاہد یہ میری شوخیٔ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سرمستیٔ ازل جب مجھے یاد آگئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آرزدگیٔ خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو تو شرم آئی میں شرما کے پی گیا
ائے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن یہ کب تھی مری مجال
درپردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ میکدہ کی قسم! بارہا جگرؔ
کل عالمِ بساط پہ میں چھا کے پی گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام