نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے

غزل| جگرؔ مراد آبادی انتخاب| بزم سخن

نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
نہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے
ستاتے نہیں وہ تو اُن کی طرف سے
خود اپنے ستانے کو جی چاہتا ہے
کوئی مصلحت روک دیتی ہے ورنہ
پلٹ دیں زمانے کو جی چاہتا ہے
تجھے بھول جانا تو ہے غیر ممکن
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے
تواضع کر ائے عشق چند آنسوؤں سے
بہت مسکرانے کو جی چاہتا ہے
بہت دیر تک چھپ کے تیری نظر سے
تجھے دیکھ پانے کو جی چاہتا ہے
تری آنکھ کو بھی جو بے خواب کردے
وہ فتنہ جگانے کو جی چاہتا ہے
حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جگرؔ اب تو وہ بھی یہ کہتے ہیں مجھ سے
ترے ناز اُٹھانے کو جی چاہتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام