کبھی یہ شہرِ جمال اتنا کم وقار نہ تھا

غزل| محشرؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

کبھی یہ شہرِ جمال اتنا کم وقار نہ تھا
یہاں غزال تھے اتنے کہ کچھ شمار نہ تھا
مجھے نہ روک سکا لشکرِ غنیم کہیں
وہ تیر کون سا تھا جس کا میں شکار نہ تھا
پڑاؤ ڈالتے دھوپوں کے رہ نورد کہاں
بس اک درخت تھا اور وہ بھی سایہ دار نہ تھا
عجیب دورِ سزا ہے یہ دورِ فرصت بھی
گزر رہے ہیں وہ دن جن کا انتظار نہ تھا
بڑی صفائی سے دہرا گیا حکایتِ دار
وہ قصہ گو جو کبھی روشناسِ دار نہ تھا
میں فقر میں بھی جیا ہوں بڑی فضیلت سے
مری فقیری فقیری تھی کاروبار نہ تھا
میں کس سے پھر طلبِ پرسش و دعا رکھتا
یہاں کسی پہ مرا حال آشکار نہ تھا
دکھوں کے گہرے نقوش اہلِ درد چھوڑ گئے
کہ سب ہی روتے تھے اورکوئی اشکبار نہ تھا
یہاں چلی ہے کئی بار بادِ وحشت ناک
کبھی تو اتنا پُرآشوب یہ دیار نہ تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام