ہوا نے مژدے بصد زمزمہ سرائی دیئے

غزل| محشرؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

ہوا نے مژدے بصد زمزمہ سرائی دیئے
سو کچھ سنائی دیئے کچھ نہیں سنائی دیئے
عطا مجھے بھی کرے وہ کوئی سلیقۂ حرف
وہ جس نے غنچوں کو آدابِ لب کشائی دیئے
گزر گئے وہ فقیر اب کہاں نظر آئیں
غریب شہر میں تھے تو کسے دکھائی دیئے
زمیں پہ ڈھیر ہیں ہم اور اسی زمیں نے تمہیں
صلے سفر کے بغیرِ شکستہ پائی دیئے
رہِ مراد میں ایک خوابِ مہرباں نے ہمیں
دیا سکوں بھی مگر دکھ تو انتہائی دیئے
سبھی گرانیٔ خاک اپنی روح پر سہہ لی
خراج وقت کے جتنے تھے پائی پائی دیئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام