آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا

غزل| محشرؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا
اور وہ غم مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا
سوچتا ہوں اشکِ حسرت ہی کروں نذرِ بہار
پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
آج اگر گھر میں یہی رنگِ شبِ عشرت رہا
لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا
تا حدِ منزل توازن چاہیئے رفتار میں
جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا
گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ
ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا
روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ
میں گزر جاؤں گا میرا نقشِ پا رہ جائے گا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام