محبت بھی کئے جاتے ہیں غم کھائے بھی جاتے ہیں

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

محبت بھی کئے جاتے ہیں غم کھائے بھی جاتے ہیں
گنہ کرتے بھی جاتے ہیں سزا پائے بھی جاتے ہیں
جفا کرتے بھی ہیں عذرِ جفا لائے بھی جاتے ہیں
لہو پیتے بھی جاتے ہیں قسم کھائے بھی جاتے ہیں
اِسی نے تم کو چمکایا ہمیں برباد کر ڈالا
وفا پر ناز بھی کرتے ہیں پچھتائے بھی جاتے ہیں
وہی ہر صبح امیدیں وہی ہر شام مایوسی
کھلے بھی جا رہے ہیں پھول مرجھائے بھی جاتے ہیں
مزا یہ ہے لیے بھی جا رہے ہیں جانبِ مقتل
تسلی بھی دیئے جاتے ہیں سمجھائے بھی جاتے ہیں
پڑے ہیں اس بتِ کافر کے سنگِ آستاں ہو کر
مگر پامال بھی ہوتے ہیں ٹھکرائے بھی جاتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام