ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے
کبھی نامہرباں کو مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
بِنائے زندگی دوچار تنکوں پر سہی لیکن
انہی تنکوں آخر آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
بھلا ہم اور تجھ کو ناز بردارِ عدو کہتے
مگر ائے بے نیازِ دوستاں کہنا ہی پڑتا ہے
مری آہ و فغاں کو نالۂ بلبل سے کیا نسبت
مگر اک ہم وطن کو ہم زباں کہنا ہی پڑتا ہے
محبت خانۂ صیاد سے بھی ہو ہی جاتی ہے
قفس کو بھی کسی دن آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
بتوں سے اتنا دیرینہ تعلق باوجود اس کے
ہوا جو کچھ سرِ کوئے بتاں کہنا ہی پڑتا ہے
ہراک محفل میں جا کر ہم غزل کہتے نہیں عاجزؔ
جہاں وہ شوخ ہوتا ہے وہاں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ مانا عشق میں ضبطِ فغاں کی شرط لازم ہے
اُلجھتا ہے جو دل دردِ نہاں کہنا ہی پڑتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام