جدا جب تک تری زلفوں سے پیچ و خم نہیں ہوں گے

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

جدا جب تک تری زلفوں سے پیچ و خم نہیں ہوں گے
ستم دنیا میں بڑھتے ہی رہیں گے کم نہیں ہوں گے
دلاسے ان کے جو درد آشنائے غم نہیں ہوں گے
نمک ہی ہوں گے دل کے زخم پر مرہم نہیں ہوں گے
بتانِ فتنہ گر اس سر زمیں پر کم نہیں ہوں گے
تمہارے جیسے لیکن فتنۂ عالم نہیں ہوں گے
اگر بڑھتا رہا یوں ہی یہ سودائے ستم گاری
تمہی رسوا سرِ بازار ہو گے ہم نہیں ہوں گے
جنابِ شیخ پر افسوس ہے ہم نے تو سمجھا تھا
حرم کے رہنے والے ایسے نامحَرم نہیں ہوں گے
ادھر آو تمہاری زلف ہم آراستہ کر دیں
جو گیسو ہم سنواریں گے کبھی برہم نہیں ہوں گے

اگرچہ عشق میں مرنے کا خطرہ ہی زیادہ ہے
مگر مرنے کے ڈر سے مرنے والے کم نہیں ہوں گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام