جب فصلِ بہاراں آئی تھی گلشن میں اُنہی ایام سے ہم

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

جب فصلِ بہاراں آئی تھی گلشن میں اُنہی ایام سے ہم
یاروں میں لُٹاتے پھرتے تھے کچھ پھول غزل کے نام سے ہم
اک شوخ کا بسمل کہتے ہیں مشہور ہیں اب اس نام سے ہم
فن ہم سے تڑپنے کا سیکھو واقف ہیں بہت اس کام سے ہم
کھولے ہوئے ہیں غزلوں کی دکاں ٹوٹے ہوئے دل کے نام سے ہم
چھلکائیں گے کتنے جام ابھی اس ایک شکستہ جام سے ہم
بجھنے کا خیال آتا ہی نہیں روشن جو ہوئے اک شام سے ہم
تکلیف سُلگتے ہی تک تھی جلتے ہیں بڑے آرام سے ہم
اک دن یہ ہے کتنی حسرت سے ذکرِ مئے و مینا کرتے ہیں
اک دن تھے کہ کھیلا کرتے تھے ساغر سے سبو سے جام سے ہم
چھائی ہے گھٹا شمشیروں کی زخموں کی پُھواریں پڑتی ہیں
کہتے ہیں لہو کے پیمانے ارزاں ہیں مئے گل فام سے ہم

آج اپنے جھروکے پر بیٹھے پتھر ہمیں مارو ہو پیارے
کل پھول اُچھالا کرتے تھے اُس بام سے تم اس بام سے ہم


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام