کیوں اسیرِ گیسوئے خم دار قاتل ہوگیا

غزل| مولانا ابوالکلام آزادؔ انتخاب| بزم سخن

کیوں اسیرِ گیسوئے خم دار قاتل ہوگیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو ائے دل ہوگیا
کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہوگیا
اُس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگِ محفل ہوگیا
تم نے مارا غیر کو اور رشک نے مارا مجھے
اس نے تن پر کھائیں تلواریں میں بسمل ہوگیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہوگیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولا دشت کا لیلی کا محمل ہوگیا
انتظار اُس گل کا اس درجہ کیا گلزار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہوگیا
یہ بھی قیدی بن گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزاؔد شامل ہوگیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام