جو گزری دل پہ میرے وہ زباں پر لا نہیں سکتی

مناجات| امۃ اللہ تسنیمؔ انتخاب| بزم سخن

جو گزری دل پہ میرے وہ زباں پر لا نہیں سکتی
دل بے چین کی حالت میں اب بتلا نہیں سکتی
کچھ ایسی بے کلی ہے چین دم بھر پا نہیں سکتی
ترے دربار میں حرفِ شکایت لا نہیں سکتی
دل بیتاب کہتا ہے کلیجہ منھ کو آتا ہے
اشارہ بندگی کا ہے کہ روکو صبر جاتا ہے
ترے بابِ کرم پر روز سو سو بار آتی ہوں
کہانی اس دلِ پُر درد کی تجھ کو سناتی ہوں
تڑپ اور بے کلی سے جب بہت ہی تنگ آتی ہوں
تو پھر بیتاب ہو کر تیرے دروازے پہ آتی ہوں
الہی اپنی حکمت سے علاجِ دردِ دل کر دے
تو مجھ بیمارِ غم کو اب خوشی کامل عطا کر دے
دلِ مضطر کے ہاتھوں دشتِ غم میں پھرتی ہوں تنہا
جو دن پڑتے ہیں مجھ پر تو ہی واقف ہے مرے مولا
ترے پیشِ نظر ہے ہر گھڑی پہ معاملہ دل کا
نہیں مخفی ہے تجھ سے کچھ بھی حالِ زار مضطر کا
ترا گر ایک اشارہ ہو مرے سو کام بن جائیں
فقط اک کن کے کہنے ہی مرادیں دل کی بر آئیں
بگڑتی ہے جو حالت دل کی تیرا نام لیتی ہوں
کلیجہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر تھام لیتی ہوں
تری مرضی سمجھ کر صبر سے پھر کام لیتی ہوں
تجھی سے کہہ کے حالِ زارِ دل آرام لیتی ہوں
رسائی ہو گئی دربار میں سر جھک گیا در پر
تو پھر تسنیمؔ کیوں رہتی ہے تو بیتاب اور مضطر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام