ایک نعت سناؤں میں ایسی .....

نعت| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

اک نعت سناؤں میں ایسی جو ذوقِ یقیں کو گرما دے
جو شان و شوکت باطل کی ملعون چمک کو جھٹلا دے
جو نانِ جویں کے خوگر کو شاہوں سے الجھنا سکھلا دے
جو آہِ سحر گاہی کی طرح پتھر کے جگر کو پگھلا دے
ایک نعت سناؤں میں ایسی .....
اک نعت سناؤں میں ایسی جو بابِ جناں کو باز کرے
جو چھیڑ کے روح کا اک نغمہ بیگانۂ برگ و ساز کرے
فیضان سے جس کے اک سائل بوسیدہ ٹاٹ پہ ناز کرے
اور ایک گداۓ خاک نشیں شاہوں کو نظر انداز کرے
ایک نعت سناؤں میں ایسی .....
اک نعت سناؤں میں ایسی جو عرشِ بریں کا تحفہ ہو
اک نعت سناؤں میں ایسی جو سازِ روح کا نغمہ ہو
توحید کا پرتو سے روشن دھرتی کا ہر اک ذرّہ ہو
توحید ہی اصلِ ایماں ہے دنیا پہ عیاں یہ نکتہ ہو
ایک نعت سناؤں میں ایسی .....
معبود و نبی میں فرق جو ہے دنیا پہ نمایاں ہو جائے
شایانِ نبی ہرگز یہ نہیں وہ ہمسرِ یزداں ہو جاۓ
انسان کا سینہ لازم ہے وحدت کا دبستاں ہو جاۓ
انسان کے لئے اعزاز ہے یہ وہ بندۂ یزداں ہو جاۓ
ایک نعت سناؤں میں ایسی .....
وہ نعت کہ جس سے بادِ صبا کا فیض چمن میں جاری ہو
وہ نعت کہ جس سے ہر جانب بارانِ رحمتِ باری ہو
انصاف ملے ہر بے بس کو اور عام یہاں غم خواری ہو
اور ساز فطرتؔ کا نغمہ ہر اک کی زباں پر جاری ہو
ایک نعت سناؤں میں ایسی .....



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام