معمور گلوں سے ترا دامن تو نہیں ہے

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

معمور گلوں سے ترا دامن تو نہیں ہے
گلشن خس و خاشاک کا مسکن تو نہیں ہے
یہ کیسا اجالا ہے کہیں برق کی زد میں
خود باغ کے مالی کا نشیمن تو نہیں ہے
خود اپنے ہی دامن پہ یہ ہونے لگا احساس
ہاتھوں میں مرے آپ کا دامن تو نہیں ہے
کیوں تیرے عزائم پہ مسلّط ہے اداسی
محشر گہِ ہستی ہے یہ مدفن تو نہیں ہے
اپنے ہی تو ہوتے ہیں لہو چوسنے والے
پیاسا مرے خوں کا کوئی دشمن تو نہیں ہے
تم کو مرے غم خانہ میں کیا چین ملے گا
کٹیا ہے یہ فردوس کا دامن تو نہیں ہے
اے وقت ذرا غور تو کرنے دے مجھے یہ
رہبر جسے جانا ہے وہ رہزن تو نہیں ہے
بڑھتے نہیں پھولوں کی طرف ہاتھ ترے کیوں
تجھ کو گلۂ تنگئ دامن تو نہیں ہے
امید کی کلیاں یہاں کھلتی ہے شب و روز
دل مرا ہے گلشن کی طرح بن تو نہیں ہے
پرواز فلک بوس سے شاہیں کو ہے مطلب
شاہیں کبھی پابندِ نشیمن تو نہیں ہے
محفوظ جسے کہہ سکوں میں برق تپاں سے
گلشن میں کوئی ایسا نشیمن تو نہیں ہے

جو شاعری پروردہ نہیں خونِ جگر کی
فطرتؔ وہ ہے کچھ اور مگر فن تو نہیں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام