دور تک جانا تھا مجھ کو ہم سفر کوئی نہ تھا

غزل| انؔیس بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

دور تک جانا تھا مجھ کو ہم سفر کوئی نہ تھا
ہر طرف اونچے مکاں تھے گھر مگر کوئی نہ تھا
دھوپ کی یلغار سے جُھلسی ہوئی تھیں تتلیاں
شاخ گل کا کیا تصور جب شجر کوئی نہ تھا
عکس بندی کررہی تھی کیمرے کی آنکھ بھی
مجھ پہ جب طوفان ٹوٹا بے خبر کوئی نہ تھا
آگ لگ جائے کہیں انگلی اٹھے میری طرف
یعنی اس دنیا میں مجھ سا معتبر کوئی نہ تھا
جینے والوں میں نمایاں مرنے والوں میں بھی پیش
میں ہی میں تھا اور مجھ سے پیشتر کوئی نہ تھا
آخرش مجھ پر کُھلا خوش فہمیوں کا ہوں شکار
درحقیقت میرے جیسا در بدر کوئی نہ تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام