صدیوں کی شبِ غم کو سحر ہم نے بنایا

غزل| ساغرؔ نظامی انتخاب| بزم سخن

صدیوں کی شبِ غم کو سحر ہم نے بنایا
ذرّات کو خورشید و قمر ہم نے بنایا
تخلیق اندھیروں سے کئے ہم نے اجالے
ہر شب کو اک ایوانِ سحر ہم نے بنایا
برفاب کے سینے میں کیا ہم نے چراغاں
ہر موجۂ دریا کو شرر ہم نے بنایا
شبنم سے نہیں رنگ دیا دل کے لہو سے
ہر خار کو برگِ گلِ تر ہم نے بنایا
ہر موج میں محراب و در و بام تراشے
طوفان کے آغوش میں گھر ہم نے بنایا
ہر خار کے سینے میں چمن ہم نے کھلائے
ہر پھول کو فردوسِ نظر ہم نے بنایا
گیسو کو ترے کب تھا بکھرنے کا سلیقہ
شائستۂ اربابِ نظر ہم نے بنایا
رفتار کو کھلتے ہوئے غنچوں کی صدا دی
ہر گام کو اک خلدِ نظر ہم نے بنایا
ہر رخ سے ترے حسن کی ضو پھوٹ رہی ہے
کیا زاویۂ فکر و نظر ہم نے بنایا
بے خونِ جگر شبنم بے رنگ تھے آنسو
آنسو کو مگر لعل و گہر ہم نے بنایا
خود بڑھ کے ڈھلے نور کے سانچوں میں اندھیرے
یادوں کو تری شمعِ بصر ہم نے بنایا
جب برق ہوئی شعلہ فگن لالہ و گل پر
ہر پھول کی پتی کو سپر ہم نے بنایا
حسرت سے جسے دیر و حرم دیکھ رہے ہیں
وہ خم کدۂ فکر و نظر ہم نے بنایا
ہٹ کر روشِ عام سے اک راہ نکالی
کانٹوں سے بھرا راہ گزر ہم نے بنایا
گر شوقِ تصادم ہے تو ٹکرائے زمانہ
اک عمر میں پتھر کا جگر ہم نے بنایا
اشکوں کو شفق رنگ کیا خون جگر سے
کیا غازۂ رخسارِ سحر ہم نے بنایا

ڈھلتے ہیں جہاں بادۂ تجدید کے ساغرؔ
وہ میکدۂ فکر و نظر ہم نے بنایا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام