دل کی آنکھیں کھلتی ہیں چشمِ ظاہر سوتی ہے

غزل| ساغرؔ نظامی انتخاب| بزم سخن

دل کی آنکھیں کھلتی ہیں چشمِ ظاہر سوتی ہے
بے ہوشی کے پردے میں سیرِ عالم ہوتی ہے
کافر گیسو والوں کی رات بسر یوں ہوتی ہے
حُسن حفاظت کرتا ہے اور جوانی سوتی ہے
مجھ میں تجھ میں فرق نہیں مجھ میں تُجھ میں فرق ہے یہ
تو دنیا پر ہنستا ہے دنیا مجھ پر روتی ہے
اس معمور خزانے سے ضبط ذرا ہشیار رہے
دل کی ہر گہرائی میں ایک اچھوتا موتی ہے
صبر و سکوں دو دریا ہیں بھرتے بھرتے بھرتے ہیں
تسکیں دل کی بارش ہے ہوتے ہوتے ہوتی ہے
جینے میں کیا راحت تھی مرنے میں تکلیف ہے کیا
جب دنیا کیوں ہنستی تھی؟ اب دنیا کیوں روتی ہے؟
دل کی تو تشخیص ہوئی چارہ گروں سے پوچھوں گا
دل جب دھک دھک کرتا ہے وہ حالت کیا ہوتی ہے
ساون آئے پھول کھلے ایک افسردہ بول اٹھا
جس میں دل کھل جاتے ہیں وہ برکھا کب ہوتی ہے
ذرّے اور تارے مل کر جادو روز جگاتے ہیں
فطرت کی بیداری میں ساری دنیا سوتی ہے
رات کے آنسو اے ساغرؔ پھولوں میں بھر جاتے ہیں
صبحِ چمن اس پانی سے کلیوں کا منہ دھوتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام