دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں

غزل| ساغرؔ نظامی انتخاب| بزم سخن

دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں
ڈھونڈنے کو تجھے او مرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن
پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں
حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھول ہوئی ہو یہ مجھے یاد نہیں
بربطِ ماہ پہ مضرابِ فغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں
لاؤ! اک سجدہ کروں عالَمِ بد مستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام