آرزو یہ ہے کہ نکلے دَم تمہارے سامنے

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

آرزو یہ ہے کہ نکلے دَم تمہارے سامنے
تُم ہمارے سامنے ہو ہم تمہارے سامنے
حشر کے دِن بھی ہو شرحِ غم تمہارے سامنے
سب خُدا کے سامنے ہوں ہم تمہارے سامنے
آہ لب پر آئے تھم تھم کر کہ تم گھبرا نہ جاؤ
درد دِل میں ہو مگر کم کم تمہارے سامنے
رُوبرو میرے بِٹھایا جِس طرح سے غیر کو
ہو یوں ہی اِک فتنۂ عالم تمہارے سامنے
بعد میرے روئے گا سارا زمانہ دیکھنا
دُھوم سے ہو گا مرا ماتم تمہارے سامنے
آئی ہے کیا میری شامت آئی ہے کیا میری موت
میں کروں اِظہارِ درد و غم تمہارے سامنے
قتل کر ڈالو ہمیں یا جُرمِ اُلفت بخش دو
لو کھڑے ہیں ہاتھ باندھے ہم تمہارے سامنے
واعظو! تم کو نہ ہو زِندانِ جنت کا یقیں
خود کہیں گر حضرتِ آدم تمہارے سامنے
اِک تمہاری چُپ میں سو اعزاز دیکھے اے بُتو!
دم بخود ہے عیسیٔ مریم تمہارے سامنے
اب یہ بیباکی؟ وہ دِن بھی یاد ہیں جب چُھپ گئے
آ گیا جب کوئی نامحرم تمہارے سامنے
حالِ دِل میں کچھ نہ ہو تاثیر یہ ممکن نہیں
کوئی اِتنا بھی کہے ہر دم تمہارے سامنے
مجھ کو اِس سَر کی قسم ہر دم وہی ہے اِضطراب
داغِؔ مُضطر کا جو تھا عالم تمہارے سامنے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام