دئے داغ نے امتحاں کیسے کیسے

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

دئے داغؔ نے امتحاں کیسے کیسے
مٹائے ہیں اُن کے گماں کیسے کیسے
نشیب و فراز اُن کو سمجھائے کیا کیا
ملائے زمین آسماں کیسے کیسے
ہوئیں اُن سے غمازیاں کیسی کیسی
بنے تھے مرے رازداں کیسے کیسے
وہ جب اوپری دل سے کرتے ہیں وعدہ
تو کھاتی ہے پلٹے زباں کیسے کیسے
بنایا کئے مجھ کو مجرم وہ نا حق
ملایا کئے ہاں میں ہاں کیسے کیسے
ملے زاہدِ پیر کو حور توبہ
وہاں ہوں گے رعنا جواں کیسے کیسے
نہ آثارِ عشرت نہ سامانِ راحت
نشاں سے ہوئے بے نشاں کیسے کیسے
چھٹے قافلے والے اول ہی منزل
پڑے رہ گئے ناتواں کیسے کیسے
نہ مانی نہ مانی مری بات اُس نے
ہوئے دوست ہم داستاں کیسے کیسے
سکھانے پڑھانے کو ہیں دوست دشمن
یہاں کیسے کیسے وہاں کیسے کیسے
کھلائے ہیں گل نوکِ مژگاں نے کیا کیا
بنائے ہیں دل پر نشاں کیسے کیسے
نہیں حیدر آباد و پیرس سے کچھ کم
یہاں بھی سجے ہیں مکاں کیسے کیسے
گئے دیدہ و دل بھی ہمراہِ قاصد
روانہ ہوئے ارمغاں کیسے کیسے
مرے ساتھ غیروں پہ بھی آفت آئی
نکالے گئے میہماں کیسے کیسے
گذر گاہِ ارمان و حسرت رہا دل
گذرتے رہے کارواں کیسے کیسے
شکایت حکایت ہی میں رات گذری
رہے تذکرے درمیاں کیسے کیسے
وطن سے چلے داغؔ جب ہم دکن کو
چُھٹے اہلِ ہندوستاں کیسے کیسے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام