جس پر بھی جوانی آتی ہے اور تھوڑا جمال آ جاتا ہے

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

جس پر بھی جوانی آتی ہے اور تھوڑا جمال آ جاتا ہے
مت پوچھو ستم گاری میں اُسے کس درجہ کمال آ جاتا ہے
محفل میں اگر پڑھنے کو غزل عاجؔز کسی سال آ جاتا ہے
کچھ تھام کے دل رہ جاتے ہیں کچھ لوگوں کو حال آ جاتا ہے
ہم بھی نہ کریں کیوں ترکِ وفا اکثر یہ سوال آ جاتا ہے
پھر وضع کی بات آ جاتی ہے غیرت کا سوال آ جاتا ہے
اشکوں کے مسافر صف باندھے خاموش گذرنے لگتے ہیں
پھر خواب کہاں ان آنکھوں میں جب اُن کا خیال آ جاتا ہے
جب کوئی نیا گل کِھلتا ہے شاعر کا کلیجہ ہلتا ہے
دنیا کو غزل مل جاتی ہے اور دل پہ وبال آ جاتا ہے
اب فصلِ بہاراں آئے گی اب فصلِ بہاراں آئے گی
اک سال گذر جاتا ہے یوں ہی اور دوسرا سال آ جاتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام