مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل
آشفتہ دل فریفتہ دل بے قرار دل
ہر بار مانگتی ہیں نیا چشمِ یار دل
اک دل کے کس طرح سے بناؤں ہزار دل
مشہور ہو گئی ہے زیارت شہید کی
خوں کشتہ آرزو کا بنا ہے مزار دل
یہ صید گاہِ عشق ہے ٹھہرائیے نگاہ
صیاد مضطرب سے نہ ہوگا شکار دل
طوفانِ نوح بھی ہو تو مل جائے خاک میں
اللہ رے غبار ترا پرغبار دل
پوچھا جو اس نے طالبِ روزِ جزا ہے کون
نکلا مری زبان سے بے اختیار دل
کرتے ہو عہدِ وصل تو اتنا رہے خیال
پیمان سے زیادہ ہے نا پائیدار دل
تاثیرِ عشق یہ ہے ترے عہدِ حسن میں
مٹی کا بھی بنائیں تو ہو بے قرار دل
اس کی تلاش ہے کہ نظر آئے آرزو
ظالم نے روز چاک کئے ہیں ہزار دل
عالم ہوا تمام رہا اس کو شوقِ حور
برسائے آسمان سے پروردگار دل
پہلے پہل کی چاہ کا کیجے نہ امتحاں
آنا تو سیکھ لے ابھی دو چار بار دل
نکلے مری بغل سے وہ ایسے تڑپ کے ساتھ
یاد آ گیا مجھے وہیں بے اختیار دل
اے عندلیب تجھ کو لگے کب ہوائے عشق
کلیوں کی طرح تجھ میں نہ پھوٹے ہزار دل
عاشق ہوئے وہ جیسے عدو پر یہ حال ہے
رکھ کہہ کے ہاتھ دیکھتے ہیں بار بار دل
اس نے کہا ہے صبر پڑے گا رقیب کا
لے اور بے قرار ہوا بے قرار دل
بیتاب ہو کے بزم سے اس کی اٹھا دیا
غافل میں ہوں مگر ہے بہت ہشیار دل

مشہور ہیں سکندر و جم کی نشانیاں
اے داغؔ چھوڑ جائیں گے ہم یاد گار دل


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام