اہلِ طوفاں! آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں

غزل| مجروحؔ سلطان پوری انتخاب| بزم سخن

اہلِ طوفاں! آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسو بھنور کو چشمِ جانانہ کہیں
دار پر چڑھ کر لگائیں نعرۂ زلفِ صنم
سب ہمیں با ہوش سمجھیں چاہے دیوانہ کہیں
وہ شہِ خوباں کدھر ہے پھر چلیں اس کے حضور
زندگی کو دل کہیں اور دل کو نذرانہ کہیں
تھامیں اُس بت کی کلائی اور کہیں اِس کو جنوں
چوم لیں منہ اور اسے اندازِ رندانہ کہیں
سرخیٔ مَے کم تھی میں نے چھو لئے ساقی کے ہونٹ
سر جھکا ہے جو بھی اب اربابِ مے خانہ کہیں
تشنگی ہی تشنگی ہے کس کو کہیئے مے کدہ
لب ہی لب ہم نے تو دیکھے کس کو پیمانہ کہیں
پارۂ دل ہے وطن کی سرزمیں مشکل یہ ہے
شہر کو ویراں کہیں یا دل کو ویرانہ کہیں
ائے رخِ زیبا! بتا دے اور ابھی ہم کب تلک
تیرگی کو شمع تنہائی کو پروانہ کہیں

آرزو ہی رہ گئی مجروحؔ کہتے ہم کبھی
اک غزل ایسی جسے تصویرِ جانانہ کہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام