اشک یونہی بہا نہیں کرتے

غزل| عاجزؔ مالیرکوٹلوی انتخاب| بزم سخن

اشک یونہی بہا نہیں کرتے
زخم دل کے چھپا نہیں کرتے
راس آیا ہے جن کو آپ کا غم
غم کو دل سے جدا نہیں کرتے
جو خدا کو رحیم کہتے ہیں
وہ کسی پر جفا نہیں کرتے
ہم نے دیکھا یہ ہے کہ دل والے
دل کی باتیں کہا نہیں کرتے
اپنے اعمال پر ہے جن کی نظر
غیبتیں وہ کیا نہیں کرتے
راہِ تبلیغِ دیں میں اہلِ دیں
جابروں سے دبا نہیں کرتے
وہ منافق ہیں اور بقولِ خدا
جو بھی وعدے وفا نہیں کرتے
اٹھ گئے جو قدم رہِ حق میں
پھر وہ پیچھے ہٹا نہیں کرتے
جن کے پیشِ نظر ہے یومِ حساب
پھر وہ قصداً خطا نہیں کرتے
تیری الفت کے ما سوا تجھ سے
ہم کوئی التجا نہیں کرتے
شرک و بدعت کا یہ فسوں کب تک
کھوٹے سکّے چلا نہیں کرتے
گل کے انجام سے جو واقف ہیں
گل کی صورت ہنسا نہیں کرتے
جن کی طینت میں ہے وفا کوشی
وہ کسی سے دغا نہیں کرتے
جن کے کہنے سے پھر ندامت ہو
ایسی باتیں کہا نہیں کرتے
اپنے رب سے جو ڈر گئے عاجزؔ
وہ کسی سے ڈرا نہیں کرتے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام