تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا
ہمارے خط کے تو پرزے کیے پڑھا بھی نہیں
سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا
اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں
لحاظ آپ کو وقتِ خرام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح وشام کس کا تھا
ہمیں تو حضرتِ زاہد کی ضد نے پلوائی
یہاں ارادۂ شرابِ مدام کس کا تھا
اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیرِ بام کس کا تھا
وہ کون تھا کہ نہیں جس نے بے وفا جانا
خیالِ خام یہ سودائے خام کس کا تھا
انھیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف عام ہی کرتے تو نام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام