داغ دے کر صاف چہرہ مانگتی ہے زندگی

غزل| مظفرؔ وارثی انتخاب| بزم سخن

داغ دے کر صاف چہرہ مانگتی ہے زندگی
لوٹ کر بھی اپنا حصہ مانگتی ہے زندگی
دن میں مجھ پر دھوپ کی دیوار بن کر گر پڑے
اور شب کو اپنا سایہ مانگتی ہے زندگی
ایک تو زخموں سے چکنا چور کرتی ہے ہمیں
اور پھر سونے کا تمغہ مانگتی ہے زندگی
پیار کا اظہار بھی کرتی ہے ظالم کی طرح
منھ پہ تھپڑ دے کے بوسہ مانگتی ہے زندگی
دوسری دنیا کا جب در پیش ہوتا ہے سفر
موت سے در اصل وقفہ مانگتی ہے زندگی
کون یہ اس کو سکھاتا ہے زبردستی کا فن
کھینچ کر دیوار رستہ مانگتی ہے زندگی
لمحۂ موجود پر بھی جن کا کوئی حق نہیں
ان سے مستقبل کا قبضہ مانگتی ہے زندگی
خون سے اپنے تعلق توڑنے کے واسطے
اجنبی لوگوں سے رشتہ مانگتی ہے زندگی

لوٹتی ہے شام کو واپس مظفرؔ خالی ہاتھ
صبح اُٹھ کر روز خرچہ مانگتی ہے زندگی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام