دیوانہ کوئی جانبِ صحرا اگر گیا

غزل| کوثرؔ جعفری انتخاب| بزم سخن

دیوانہ کوئی جانبِ صحرا اگر گیا
حیرت کی بات کیا ہے وہ اپنے ہی گھر گیا
ذروں کا سینہ شق ہوا سورج اُبھر گیا
جب بھی چمن میں کوئی وسیع النظر گیا
اپنی حیات کا ہمیں رکھنا تھا کچھ لحاظ
ورنہ یہ جی تو جہدِ مسلسل سے بھر گیا
اس غم کدہ میں کون ہے مسرور و شادماں
ہم کو بھی مسکرائے زمانہ گزر گیا
آئینۂ خیال میں رقصاں ہے حسنِ یار
کوثرؔ نہ پوچھ روئے سخن کیوں نکھر گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام