بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے

غزل| جوشؔ ملسیانی انتخاب| بزم سخن

بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے
تِرا حسن سانچے میں ڈھلتا رہے
ہر اِک دل میں چمکے محبّت کا داغ
یہ سکہ زمانے میں چلتا رہے
ہو ہمدرد کیا جس کی ہر بات میں
شکایت کا پہلو نکلتا رہے
بدل جائے خود بھی تو حیرت ہے کیا
جو ہر روز وعدے بدلتا رہے
مری بے قراری پہ کہتے ہیں وہ
نکلتا ہے دم تو نکلتا رہے
پلائی ہے ساقی جو آنکھوں سے آج
اُسی کا بس اب دور چلتا رہے
تمھیں ہم سحابِ کرم بھی کہیں
امیدوں کا خرمن بھی جلتا رہے
یہ طولِ سفر یہ نشیب و فراز
مسافر کہاں تک سنبھلتا رہے
کوئی جوہری جوشؔ ہو یا نہ ہو
سخنور جواہر اگلتا رہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام