پوچھتا ہوں کہ تمہیں پاسِ وفا ہے کہ نہیں

غزل| جوشؔ ملسیانی انتخاب| بزم سخن

پوچھتا ہوں کہ تمہیں پاسِ وفا ہے کہ نہیں
کچھ کہو بھی جو کہا میں نے سنا ہے کہ نہیں
دیر سے کعبے کو جاتا ہوں یہ مقصد لے کر
دیکھ تو لوں کہیں میرا بھی خدا ہے کہ نہیں
کہہ چکا قصۂ غم ان سے تو پوچھا میں نے
ایک دکھے ہوئے دل کی یہ صدا ہے کہ نہیں
آپ نے اور سزاؤں سے تو انکار کیا
بے رخی میری محبت کی سزا ہے کہ نہیں
اے صبا تو نے چمن کی تو سنائی روداد
آشیانے کا بھی کچھ حال بتا ہے کہ نہیں
اس زمانے میں تو رہزن ہی سے پوچھو یہ بات
بھولے بھٹکے کا کوئی راہ نما ہے کہ نہیں
تھک گئے ڈھونڈ کے انصاف کو سب فریادی
جس سے پوچھا ہے کہ ہے اس نے کہا ہے کہ نہیں
خوف دنیا کا تو ہوگا مجھے کیا اس سے غرض
میں تو یہ پوچھتا ہوں خوفِ خدا ہے کہ نہیں
چار اگر ایک نیا روگ ہوا جاتا ہے
اس مرض کی بھی کتابوں میں دوا ہے کہ نہیں
میرے احباب بھی اب پوچھ رہے ہیں مجھ سے
تجھ کو انعام محبت کا ملا ہے کہ نہیں

غم دیئے رنج دیئے تم کو خدا نے اے جوشؔ
پھر بھی یہ پوچھ رہے ہو کہ خدا ہے کہ نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام