لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں

غزل| راحتؔ اندوری انتخاب| بزم سخن

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
مے کدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اچھلتے کیوں ہیں
موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کیلئے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں
نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے میری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

میں نہ جگنو ہوں دِیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام