اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے

غزل| راحتؔ اندوری انتخاب| بزم سخن

اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام