اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے

غزل| رضی اختر شوقؔ انتخاب| بزم سخن

اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے
خلقتِ شہر یونہی خوش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے مجھے ظرفِ پذیرائی دے
جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے
تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی نہیں طعنۂ رسوائی دے
بارِ دنیا نہ سہی بارِ صداقت اُٹھ جائے
ناتواں جسم کو اتنی تو توانائی دے
مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام