محبّت کس قدر پاس آفریں معلوم ہوتی ہے

غزل| چراغ حسن حسؔرت انتخاب| بزم سخن

محبّت کس قدر پاس آفریں معلوم ہوتی ہے
ترے ہونٹوں کی ہر جنبش نہیں معلوم ہوتی ہے
یہ کس کے آستاں پر مجھ کو ذوقِ سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبیں اپنی جبیں معلوم ہوتی ہے
محبّت تیرے جلوے کتنے رنگا رنگ ہوتے ہیں
کہیں محسوس ہوتی ہے کہیں معلوم ہوتی ہے
جوانی مٹ گئی لیکن خلش دردِ محبّت کی
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے

اُمیدِ وصل نے دھوکے دیئے ہیں اِس قدر حسرتؔ
کہ اُس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام