عشق کا موسم غم کی ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

غزل| اخترؔ شیرانی انتخاب| بزم سخن

عشق کا موسم غم کی ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
دل میں تمنا لب پہ دعائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
یاروں کا گہری نیند میں سونا دل کا کسی کی یاد میں کھونا
شوق کی یہ ضد سب کو جگائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
عشق کی نادانی کا فسانہ عقل کی حیرانی کا زمانہ
سر میں جنوں آنکھوں میں حیائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
شوق کی پہلی نیند اچٹنا عشق کی پچھلی رات نہ کٹنا
دل میں امیدیں لب پہ دعائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
دور سے ان کو دیکھتے رہنا منہ سے مگر اک حرف نہ کہنا
سادہ نگاہیں بھولی ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
پاک سہانی گھر کی فضائیں بوئے حنا سے مست ہوائیں
صحن میں بنتِ عم کی صدائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
گھر پہ کسی کے رات گزرنا اور وہ اس کا صبح کو ڈرنا
دیکھو کنیزیں دیکھ نہ پائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
چاندنی راتیں سوئی ہوئیں سی نیند میں فطرت کھوئی ہوئی سی
مست فضائیں سرد ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
جھولے میں ان کو چھیڑتے رہنا اور وہ ان کا ناز سے کہنا
آپ نہ جھولا اب سے جھلائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ان کا بلانا آپ نہ جانا راہ وہ دکھانا رات جگانا
تاکہ ابھی وہ اور منائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
صحنِ چمن اور بادہ پرستی رات کا منظر عالمِ مستی
قدموں پہ ساغر سر پہ گھٹائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
وہ مری راتیں مہکی ہوئی سی وہ مری باتیں بہکی ہوئی سی
مرنے کے دن جینے کی دعائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ایک گلی سے روز گزرنا گرچہ کسی سے بات نہ کرنا
سینے میں دھڑکن منہ پہ ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
گھر پہ وہ اک مہ پارہ کا آنا بات نہ کرنا آنکھ چرانا
دل میں خلش تنہا کبھی پائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
چاندنی اور دریا کا سفینہ ہاتھ میں مینا ساتھ حسینہ
ساز کے لب پر مست صدائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
باغ کا وہ پھولوں سے مہکنا وقت کا خوشبو بن کے لہکنا
چاندنی راتیں مست ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
گاؤں کے جس پنگھٹ پہ بھی جانا بے کہے گاگر سر پہ رکھانا
ہنستی رہیں گھونگھٹ میں ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
یاد میں آنسو بہتے ہیں اخترؔ کھوئے ہوئے سے رہتے ہیں اخترؔ
دل سے سمے وہ کیسے بھلائیں اف ری جوانی ہائے زمانے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام