جھیل آنکھوں کو نہ ہونٹوں کو کنول کہتے ہیں

غزل| معراجؔ فیض آبادی انتخاب| بزم سخن

جھیل آنکھوں کو نہ ہونٹوں کو کنول کہتے ہیں
ہم تو زخموں کی نمائش کو غزل کہتے ہیں
ہرطرف جھوٹ کے چہرے پہ ضرورت کی نقاب
اب یہاں سچ کو دماغوں کا خلل کہتے ہیں
جس کو اربابِ حکومت نے بغاوت جانا
ہم اُسے بھوک کا اک ردِّ عمل کہتے ہیں
ہم تھکے ہارے مسافر سفرِ ہستی میں
نیند کے آخری جھونکے کو اجل کہتے ہیں

ہم بھی تھے تیری ہتھیلی کی لکیروں میں کبھی
ہاں مگر بیتے ہوئے آج کو کل کہتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام