زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا

غزل| معراجؔ فیض آبادی انتخاب| بزم سخن

زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا
پاؤں بخشیں ہیں تو توفیقِ سفر بھی دینا
گفتگو تو نے سکھائی ہے کہ میں گونگا تھا
اب میں بولوں گا تو باتوں میں اثر بھی دینا
میں تو اس خانہ بدوشی میں بھی خوش ہوں لیکن
اگلی نسلیں تو نہ بھٹکیں انہیں گھر بھی دینا
ظلم اور صبر کا یہ کھیل مکمل ہو جائے
اس کو خنجر جو دیا ہے مجھے سر بھی دینا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام