خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

غزل| شکیبؔ جلالی انتخاب| بزم سخن

خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ہو جائے
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ براندام ہو جائے
مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہو جائے

شکیبؔ اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام