مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ

غزل| شکیبؔ جلالی انتخاب| بزم سخن

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں لوگ پھول
رنگوں کا اعتبار ہی کیا سونگھ کے بھی دیکھ
ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ میں
جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ
دشمن ہے رات پھر بھی ہے دن سے ملی ہوئی
صبحوں کے درمیان ہیں جو فاصلے بھی دیکھ
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
اس کی شکست ہو نہ کہیں تیری بھی شکست
یہ آئینہ جو ٹوٹ گیا ہے اسے بھی دیکھ
تو ہی برہنہ پا نہیں اس جلتی ریت پر
تلووں میں جو ہوا کے ہیں وہ آبلے بھی دیکھ
بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ
کیا شاخ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو
نظریں اٹھا شکیبؔ کبھی سامنے بھی دیکھ



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام