یہ رات بھیانک ہجر کی ہے کاٹیں گے بڑے آرام سے ہم

غزل| شادؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

یہ رات بھیانک ہجر کی ہے کاٹیں گے بڑے آرام سے ہم
ٹلنے کی نہیں یہ کالی بلا سمجھے ہی ہوئے تھے شام سے ہم
تھا موت کا کھٹکا جاں فرسا صد شکر کہ نکلا وہ کانٹا
گر ہو نہ قیامت کا دھڑکا اب ہیں تو بڑے آرام سے ہم
اے ہم نفسو! دم لینے دو وہ بھولے نغمے یاد آ لیں
آئے ہیں چمن میں اُڑ کے ابھی چھوٹے ہیں اسی دم دام سے ہم
باتوں میں گزرتے ہجر کے دن اے کاش کہ دونوں مل جاتے
ہم سے ہے دلِ ناکام خفا آزردہ دلِ ناکام سے ہم
وہ سمجھے کہ میں نے مار لیا ہم سمجھے ملیں گے آخر وہ
ملتے ہی نگہ کے دونوں خوش آغاز سے وہ انجام سے ہم
دنیا میں تخلص کوئی نہ تھا کیا نیل کا ٹیکا شادؔ ہی تھا
تم وجہ نہ پوچھو کچھ اس کی چڑ جاتے ہیں کیوں اس نام سے ہم



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام