تمناوؤں میں الجھایا گیا ہوں

غزل| شادؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

تمناوؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اُس کوچے کے ہرذرّے سے واقف
اُدھر سے مدّتوں آیا گیا ہوں
نہیں اُٹھتے قدم کیوں جانبِ دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں
دل مُضطر سے پوچھ ائے رونقِ بزم
میں آپ آیا نہیں لایا گیا ہوں
سویرا ہے بہت ائے شورِ محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں
ستایا آ کے پہروں آرزو نے
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں
نہ تھا میں معتقد اعجازِ مے کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اُٹھوایا گیا ہوں
عدم میں کس نے بُلوایا ہے مجھ کو
کہ ہاتھوں ہاتھ پہنچایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام