جو کھل کر اُن کی زُلفیں بال آئیں سر سے پاؤں تک

غزل| شیخ محمد ابراہیم ذوؔق انتخاب| بزم سخن

جو کھل کر اُن کی زُلفیں بال آئیں سر سے پاؤں تک
بَلائیں آ کے لیں سَو سَو بَلائیں سر سے پاؤں تک
ہم اُن کی چال سے پہچان لیں گے اُن کو بُرقع میں
ہزار اپنے کو وہ ہم سے چھپائیں سر سے پاؤں تک
یہ جتنے سرو ہیں سب اُن کے قد پر زہر کھاتے ہیں
چمن میں سبز کیوں کر ہو نہ جائیں سر سے پاؤں تک
مرا دل ایک ، دُوں اُس خوش ادا کی کس ادا کو میں
کہ ہیں واں تو ادائیں ہی ادائیں سر سے پاؤں تک
سراپا شوق جائیں سر کے بل ہم جن کے جلسہ میں
مثالِ شمع وہ ہم کو جلائیں سر سے پاؤں تک
نہ ہوں بے پردہ تو بھی وہ کھڑے ہو ہو کے شوخی سے
پھبن چلمن سے در پردہ دِکھائیں سر سے پاؤں تک
بنایا اِس لئے اُس خاک کے پُتلے کو انساں تھا
کہ اُس کو درد کا پُتلا بنائیں سر سے پاؤں تک
سراپا پاک ہیں دھوئے جنہوں نے ہاتھ دنیا سے
نہیں حاجت کہ وہ پانی بہائیں سر سے پاؤں تک

مزا اُتنا ہی ذوقؔ افزوں ہو جتنے زخم افزوں ہوں
نہ کیوں ہم زخمِ تیغِ عشق کھائیں سر سے پاؤں تک


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام