ہوا بہت تیز چل رہی ہے چراغِ جاں پھر بھی جل رہا ہے

غزل| غیاث متینؔ انتخاب| بزم سخن

ہوا بہت تیز چل رہی ہے چراغِ جاں پھر بھی جل رہا ہے
یہ کون ہے جو ہمارے پیچھے ہوا کے ہمراہ چل رہا ہے
گماں کی بستی میں رہنے والو ذرا پہاڑی پہ چڑھ کے دیکھو
ادھر ندی ہے وہیں سے شہرِ یقیں کا رستہ نکل رہا ہے
سراب اندر سراب تم ہو چراغ اندر چراغ ہم ہیں
ہمیں سے تاریکیاں ہیں خائف ہمیں سے خورشید جل رہا ہے
ہمارے بچے یہاں رہیں گے تو آندھیوں میں گھرے رہیں گے
انہیں یہاں سے نکلنا ہوگا یہاں کا منظر بدل رہا ہے
پرانی قبروں پہ آج کتنے نئے مکانوں کی زندگی ہے
جو آج ہے بس اسی کو دیکھو وہ بھول جاؤ جو کل رہا ہے
کسی نے شانے پہ ہاتھ رکھ کر جو نام پوچھا متینؔ اپنا
چراغ آنکھوں میں جل بجھے ہیں وجود سارا پگھل رہا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام