یہ دنیا ذہن کی بازی گری معلوم ہوتی ہے

غزل| جوشؔ ملیح آبادی انتخاب| بزم سخن

یہ دنیا ذہن کی بازی گری معلوم ہوتی ہے
یہاں جس شے کو جو سمجھو وہی معلوم ہوتی ہے
نکلتے ہیں کبھی تو چاندنی سے دھوپ کے لشکر
کبھی خود دھوپ نکھری چاندنی معلوم ہوتی ہے
کبھی کانٹوں کی نوکوں پرلبِ گل رنگ کی نرمی
کبھی پھولوں کی خوشبو میں انی معلوم ہوتی ہے
وہ آہِ صبح گاہی جس سے تارے کانپ اٹھتے ہیں
ذرا سا رخ بدل کر راگنی معلوم ہوتی ہے
نہ سوچیں تو نہایت لطف آتا ہے تعلّی میں
جو سوچیں تو بڑی ناپختگی معلوم ہوتی ہے
جو سچ پوچھو تو وہ اِک ضرب ہے عاداتِ ذہنی پر
وہ شے جو نوعِ اِنساں کو بری معلوم ہوتی ہے
کبھی جن کارناموں پر جوانی فخر کرتی تھی
اب اُن کی یاد سے شرمندگی معلوم ہوتی ہے
بلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابت پر
اب اُن کی نیؤ یک سر کھوکلی معلوم ہوتی ہے
کبھی پرہول بن جاتا ہے جب راتوں کا سنّاٹا
سریلے تار کی جھنکار سی معلوم ہوتی ہے
اسی نسبت سے آرائش پہ ہم مجبور ہوتے ہیں
خود اپنی ذات میں جتنی کجی معلوم ہوتی ہے

پئے بیٹھا ہوں جوشؔ علم و نظر کے سینکڑوں قلزم
ارے پھر بھی بلا کی تشنگی معلوم ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام