نغمے بنے ہیں گریۂ پنہاں کبھی کبھی

غزل| جوشؔ ملیح آبادی انتخاب| بزم سخن

نغمے بنے ہیں گریۂ پنہاں کبھی کبھی
یوں گم ہوا ہے درد میں درماں کبھی کبھی
اس وقت بھی کہ جمع تھے اسبابِ سر خوشی
کم بخت دل ہوا ہے پریشاں کبھی کبھی
کلیاں جھلس گئی ہیں دہکنے لگے ہیں پھول
یوں بھی چلی ہیں بادِ بہاراں کبھی کبھی
ہم سایہ کی اُپی ہوئی نظروں کی دھار سے
مقتل بنا ہے کوچۂ جاناں کبھی کبھی
ہونکی ہیں بادِ نرم کی رو میں بھی آندھیاں
اُبلا ہے ساحلوں سے بھی طوفاں کبھی کبھی
دامانِ گل رُخاں کی بھی اڑا دی ہیں دھجیاں
پھاڑا ہے یوں بھی ہم نے گریباں کبھی کبھی
ہر اک قدم اٹھا ہے اُنہیں کی طرف مرا
اُن سے ہوا ہوں یوں بھی گریزاں کبھی کبھی
یہ عشق وہ بلا ہے کہ با وصفِ مہرِ دوست
آنکھوں نے کی ہے دعوتِ مژگاں کبھی کبھی
سُر سے ابل پڑے ہیں کبھی آنسوؤں کے سیل
آنسو بنے ہیں نغمۂ باراں کبھی کبھی
اُبھرے ہیں سطحِ خشت سے آئینے بارہا
بدلا ہے موجِ نار میں بستاں کبھی کبھی
لے میں سمٹ گیا ہے کبھی شورِ الاماں
شعلوں سے پٹ گیا ہے گلستاں کبھی کبھی
اک دامنِ حریر کی موجِ شمیم سے
لو دے اٹھا ہے خونِ رگِ جاں کبھی کبھی

ائے جوشؔ رہ چکے ہیں دعاوؤں کے سلسلے
ہم بھی بنے ہیں مردِ مسلماں کبھی کبھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام