ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا

غزل| جوشؔ ملیح آبادی انتخاب| بزم سخن

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستونِ محکم ان ہی پہ قائم ہے نظم عالم
یہ ہی تو ہے رازِ خلد و آدم نگاہ میری شباب تیرا
صبا تصدّق ترے نفس پر چمن تیرے پیرہن پہ قرباں
نسیم دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے رو برو گو اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن سوال میرا جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نےکتنے ہی رنگ بدلے ملا نہ رنگِ شباب تیرا
اِدھر مرا دل تڑپ رہا ہے تری جوانی کی جستجو میں
اُدھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ رہے گا دونوں کو کر کے رسوا
یہ شورشِ ذوقِ دید میری یہ اہتمام حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں فلک توکیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زورِ شباب تیرا

بھلا ہوا جوشؔ نے ہٹایا نگاہ کا چشمِ تر سے پردہ
بلا سے جاتی رہیں گر آنکھیں کھلا تو بندِ نقاب تیرا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام