نقابِ رخ اُٹھا کر مُسکرا کر

غزل| مہندرسنگھ بیدی سحرؔ انتخاب| بزم سخن

نقابِ رخ اُٹھا کر مُسکرا کر
چلے جانا مگر بجلی گرا کر
مجھے دیکھا جو اُس نے مسکرا کر
کچھ آنسو رہ گئے آنکھوں میں آ کر
جودوری تھی وہی دوری ہے اب بھی
کہ ہم خود کھو گئے ہیں اُن کو پا کر
محبت کے چمن میں خار بھی ہیں
نکل جانا ذرا دامن بچا کر
دوا کی منزلیں طے ہو چکی ہیں
دعا کر چارہ گر اب تو دعا کر
پریشاں تھے تری محفل سے باہر
پشیماں ہیں تری محفل میں آ کر
سحرؔ جو نیک بندے ہیں خدا کے
وہ خود پیتے ہیں اوروں کو پلا کر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام