سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا

غزل| زہرہؔ نگاہ انتخاب| بزم سخن

سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا
کہیں پر راہ بھولے تھے نہ رک کر دم لیا تھا
کسی دامن نہیں تھمتے تھے آنسو میرے کل شب
بہت دن بعد یہ اترا ہوا دریا چڑھا تھا
زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی
اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا
چلے چلتے تھے رہرو ایک آوازِ اخی پر
جنوں تھا یا فسوں تھا کچھ تو تھا جو ہو رہا تھا
میں اس دن تیری آمد کا نظارہ سوچتی تھی
وہ دن جب تیرے جانے کے لئے رکنا پڑا تھا
اسی حسنِ تعلق پر ورق لکھتے گئے لاکھ
کرن سے روئے گل تک ایک پل کا رابطہ تھا

بہت دن بعد زہرہؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں
نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام